EN हिंदी
جذبۂ دل کو عمل میں کبھی لاؤ تو سہی | شیح شیری
jazba-e-dil ko amal mein kabhi lao to sahi

غزل

جذبۂ دل کو عمل میں کبھی لاؤ تو سہی

درشن سنگھ

;

جذبۂ دل کو عمل میں کبھی لاؤ تو سہی
اپنی منزل کی طرف پاؤں بڑھاؤ تو سہی

زندگی وہ جو حریف غم ایام رہے
دل شکستہ ہے تو کیا ساز اٹھاؤ تو سہی

جاگ اٹھے گی یہ سوئی ہوئی دنیا لیکن
پہلے خوابیدہ تمنا کو جگاؤ تو سہی

پھول ہی پھول ہیں کہتے ہو جنہیں تم کانٹے
میری دنیاے جنوں میں کبھی آؤ تو سہی

تمہیں آباد نظر آئے گی اجڑی دنیا
دل کی دنیا کو محبت سے بساؤ تو سہی

زندگی پھر سے جواں پھر سے حسیں ہو جائے
ان کی آنکھوں سے ذرا آنکھ ملاؤ تو سہی

کرتے پھرتے ہو اندھیرے کی شکایت درشنؔ
دل کی دنیا میں کوئی دیپ جلاؤ تو سہی