جذبۂ درد محبت نے اگر ساتھ دیا
بات بن جائے گی قسمت نے اگر ساتھ دیا
آپ اٹھیں گے کب آغوش تمنا سے مری
زندگی کا شب فرقت نے اگر ساتھ دیا
ساتھ دے گی نہ کبھی میری محبت میرا
آپ کی چشم عنایت نے اگر ساتھ دیا
نہیں معلوم کہ انجام محبت کیا ہو
غم کا خود غم کی حقیقت نے اگر ساتھ دیا
کہیں گمنام نہ ہو جائیں وفا میں میری
میری رسوائی کی شہرت نے اگر ساتھ دیا
بد گمانی میں محبت کا اضافہ ہوگا
خود مرا میری مصیبت نے اگر ساتھ دیا
چین سے ہوگی بسر اپنی جدائی میں شجیعؔ
ان نگاہوں کی شرارت نے اگر ساتھ دیا
غزل
جذبۂ درد محبت نے اگر ساتھ دیا
نواب معظم جاہ شجیع