جذب دل جب بروئے کار آیا
ہر نفس سے پیام یار آیا
موت کا انتظار تھا آئی
جائیے اب مجھے قرار آیا
جب کسی نے لیا تمہارا نام
گریہ بے قصد و اختیار آیا
بے قراری میں اب یہ ہوش نہیں
کس کے در پر تجھے پکار آیا
فرش گل پھر بچھا رہی ہے نسیم
آئیے موسم بہار آیا
آج ہم پی سکے نہ وہ آنسو
ان کے آگے جو بار بار آیا
خیر تو ہے کہ آپ کے در سے
آج فانیؔ امیدوار آیا
غزل
جذب دل جب بروئے کار آیا
فانی بدایونی