جوانی میں طبیعت لاابالی ہوتی جاتی ہے
ترقی پر مری شوریدہ حالی ہوتی جاتی ہے
شب غم چھایا جاتا ہے دھواں آہوں کے شعلوں سے
ستارے ٹوٹتے ہیں رات کالی ہوتی جاتی ہے
امیدیں آتی ہیں آ آ کے دل سے نکلی جاتی ہیں
یہ وہ بستی ہے جو بس بس کے خالی ہوتی جاتی ہے
کھلے جاتے ہیں گل مقتل میں کیا کیا عکس عارض سے
کسی کی تیغ بھی پھولوں کی ڈالی ہوتی جاتی ہے
وہ سن کر حال فرقت ہوگا ہوگا کہتے جاتے ہیں
کہانی میری ماضی احتمالی ہوتی جاتی ہے
ملے ہیں سننے والے دل کے پتھر اے وفاؔ ایسے
کہ شرمندہ مری نازک خیالی ہوتی جاتی ہے
غزل
جوانی میں طبیعت لاابالی ہوتی جاتی ہے
میلہ رام وفاؔ