جواں تھا دل نہ تھا اندیشۂ سود و زیاں پہلے
وہ تھے کیا مہرباں سارا جہاں تھا مہرباں پہلے
وہ میر کارواں بھی اک نہ اک دن ہو کے رہتے ہیں
جنہوں نے مدتوں چھانی ہے خاک کارواں پہلے
خودی جاگی اٹھے پردے اجاگر ہو گئیں راہیں
نظر کوتاہ تھی تاریک تھا سارا جہاں پہلے
وہی برق تجلی شمع ہے میرے شبستاں کی
نہ لا سکتی تھی جس کی تاب شاخ آشیاں پہلے
ہوں اب بھی پا بہ گل تاہم بہت پرواز کی میں نے
وہ اب میری زمیں ہے تھا جو میرا آسماں پہلے
نہاں تھیں در بدر کی ٹھوکروں میں عظمتیں جامیؔ
نہ تھا اس درجہ عالی تیرا انداز بیاں پہلے

غزل
جواں تھا دل نہ تھا اندیشۂ سود و زیاں پہلے
جامی ردولوی