جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے
سکھا رہے ہیں وہ گویا چلن وفا کے مجھے
رکھا نہ ہم کو کہیں کا تری محبت نے
وہ کہہ رہے ہیں عدو سے سنا سنا کے مجھے
تمیز عشق و ہوس پیشتر نہ تھی ان کو
وہ اور ہو گئے مغرور آزما کے مجھے
شب وصال ادائیں بھی ہیں جفائیں بھی
دکھائے جاتے ہیں انداز کس بلا کے مجھے
جو سیر دیکھنی منظور ہے تمہیں بیخودؔ
بھڑا دو حضرت زاہد سے مے پلا کے مجھے
غزل
جتائے جاتے ہیں احسان بھی ستا کے مجھے
بیخود دہلوی