جشن مناؤ رونے والے گریہ بھول کے مست رہیں
سارنگی کے تیر سماعت میں امشب پیوست رہیں
ایرانی غالیچے کے چو گرد نشستیں قائم ہوں
کافوری شمعوں سے روشن پیہم اہل ہست رہیں
کسوایا جائے گھوڑوں سے لکڑی کے پہیوں کا رتھ
طبل علم اسوار پیادے سارے بندوبست رہیں
رنگ سپید و سیاہ سنہری سب شکلوں میں ظاہر ہوں
آگ سے اپنی راکھ اٹھا کر سونا چاندی جست رہیں
نقارے پر چوٹ مراتب کا اعلان سناتی ہے
پھوس کی کٹیائیں مرمر کی دیواروں سے پست رہیں
ایک طرف کچھ ہونٹ محبت کی روشن آیات پڑھیں
اک صف میں ہتھیار سجائے سارے جنگ پرست رہیں
غزل
جشن مناؤ رونے والے گریہ بھول کے مست رہیں
احمد جہانگیر