جشن حیات ہو چکا جشن ممات اور ہے
ایک برات آ چکی ایک برات اور ہے
عشق کی اک زبان پر لاکھ طرح کی بندشیں
آپ تو جو کہیں بجا آپ کی بات اور ہے
پینے کو اس جہان میں کون سی مے نہیں مگر
عشق جو بانٹتا ہے وہ آب حیات اور ہے
ظلمت وقت سے کہو حسرت دل نکال لے
ظلمت وقت کے لیے آج کی رات اور ہے
ان کو شمیمؔ کس طرح نامۂ آرزو لکھیں
لکھنے کی بات اور ہے کہنے کی بات اور ہے
غزل
جشن حیات ہو چکا جشن ممات اور ہے
شمیم کرہانی