جرس ہے کاروان اہل عالم میں فغاں میری
جگا دیتی ہے دنیا کو صدائے الاماں میری
تصور میں وہ کچھ برہم سے ہیں کچھ مہرباں سے ہیں
انہیں شاید سنائی جا رہی ہے داستاں میری
ہر اک ذرہ ہے صحرا اور ہر صحرا ہے اک دنیا
مگر اس وسعت عالم میں گنجائش کہاں میری
مری حیرت پہ وہ تنقید کی تکلیف کرتے ہیں
جنہیں یہ بھی نہیں معلوم نظریں ہیں کہاں میری
مسلسل تھا فریب خواب گاہ عالم فانی
مگر سوتا رہا چلتی رہی عمر رواں میری
وہی لمحہ ورود ناگہاں کا ان کے ہو شاید
جتا کر آئے جب بھی آئے مرگ ناگہاں میری
مذاق ہم زبانی کو نہ ترسوں باغ جنت میں
کوئی سیمابؔ حوروں کو سکھا دیتا زباں میری
غزل
جرس ہے کاروان اہل عالم میں فغاں میری
سیماب اکبرآبادی