EN हिंदी
جرس اور ساربانوں تک پہنچنا چاہتا ہے | شیح شیری
jaras aur sarbanon tak pahunchna chahta hai

غزل

جرس اور ساربانوں تک پہنچنا چاہتا ہے

دانیال طریر

;

جرس اور ساربانوں تک پہنچنا چاہتا ہے
یہ دل اگلے زمانوں تک پہنچنا چاہتا ہے

جنونی ہو گیا ہے میرے دریاؤں کا پانی
پہاڑوں کے گھرانوں تک پہنچنا چاہتا ہے

گزرنا چاہتی ہے بادلوں سے میری حیرت
مرا شک آسمانوں تک پہنچنا چاہتا ہے

پتنگا ایک پاگل ہو گیا ہے روشنی میں
فرشتوں کی اڑانوں تک پہنچنا چاہتا ہے

کثافت ختم کر کے جسم کی مٹی کا پتلا
خدا کے کارخانوں تک پہنچنا چاہتا ہے

نہیں آیا یہ اژدر پربتوں کی سیر کرنے
زمینوں کے خزانوں تک پہنچنا چاہتا ہے

درندے ساتھ رہنا چاہتے ہیں آدمی کے
گھنا جنگل مکانوں تک پہنچنا چاہتا ہے