جنت سے نکالا نہ جہنم سے نکالا
اس نے تو مجھے خوشۂ گندم سے نکالا
رکھا ہے مجھے آج تلک موج میں اس نے
جس لہر کو گرداب و تلاطم سے نکالا
یہ بھول ہی بیٹھا تھا زباں رکھتا ہوں میں بھی
سو خود کو ترے سحر تکلم سے نکالا
اس عادت تاخیر کو اک عمر ہے درکار
مشکل سے طبیعت کو تقدم سے نکالا
تدبیر کو تقدیر کی غفلت سے جگایا
امید کو بھی تہمت انجم سے نکالا
لگتا تھا نکل ہی نہیں پاؤں گا سہیلؔ اب
اس نے تو مجھے ایک تبسم سے نکالا

غزل
جنت سے نکالا نہ جہنم سے نکالا
سہیل اختر