جنگ میں جائے گا اب میرا ہی سر جان گیا
اور ہوگا نہ کوئی سینہ سپر جان گیا
مجھ شناور کو ڈبو سکتے نہیں دونوں حریف
میں بھی طوفان کا دریا کا ہنر جان گیا
اونچی پرواز کی ہمت بھی تو کر لے کرگس
لاکھ شاہین کا انداز سفر جان گیا
آج تلوار ہوئی جاتی ہیں شاخیں اس کی
جنگ ہونی ہے ہواؤں سے شجر جان گیا
اس کے آنگن میں بھی مٹی کے سوا کچھ بھی نہیں
چاند کے گھر میں جو پہنچا تو بشر جان گیا
غزل
جنگ میں جائے گا اب میرا ہی سر جان گیا
فاروق انجم