جمع ہیں سارے مسافر نا خدائے دل کے پاس
کشتیٔ ہستی نظر آتی ہے اب ساحل کے پاس
سارباں کس جستجو میں ہے یہاں مجنوں کہاں
اب بگولا بھی نہ بھٹکے گا ترے محمل کے پاس
ابتدائے عشق یعنی ایک مہلک حادثہ
آ گئی ہستی یکایک موت کی منزل کے پاس
نعمتوں کو دیکھتا ہے اور ہنس دیتا ہے دل
محو حیرت ہوں کہ آخر کیا ہے میرے دل کے پاس
یہ ترے دست کرم کو کھینچ لے گا ایک دن
اے خدا رہنے نہ دے دست دعا سائل کے پاس
غزل
جمع ہیں سارے مسافر نا خدائے دل کے پاس
ہری چند اختر