جلوے بے ہوش نہ کر دیں ترے دیوانوں کو
شمع کی لو نہ کہیں پھونک نہ دے پروانوں کو
کر نہ تلقین ادب بزم میں مستانوں کو
ہوش رہتا ہے کسے دیکھ کے پیمانوں کو
صبح کی پہلی کرن شب کا ہٹاتی ہے نقاب
زندگی از سر نو ملتی ہے ارمانوں کو
زیست بے رنگ تھی سادہ تھی کہانی دل کی
رنگ بخشا تری الفت نے ہی افسانوں کو
یہ تبسم یہ تکلم یہ ترنم یہ ادا
بیقرار اور بھی کرتے ہیں پریشانوں کو
چند کانٹے رہ دنیا سے ہٹائے ہیں ضرور
گلستاں گرچہ بنایا نہ بیابانوں کو
مدتوں کی وہ مری تشنہ لبی ہے کہ حبیبؔ
تکتی ہے دور سے خاموش جو پیمانوں کو
غزل
جلوے بے ہوش نہ کر دیں ترے دیوانوں کو
سید حبیب