جلوہ ساماں ہے رنگ و بو ہم سے
اس چمن کی ہے آبرو ہم سے
درس لیتے ہیں خوش خرامی کا
موج دریا و آب جو ہم سے
ہر سحر بارگاہ شبنم میں
پھول ملتے ہیں با وضو ہم سے
ہم سے روشن ہے کار گاہ سخن
نفس گل ہے مشکبو ہم سے
شب کی تنہائیوں میں پچھلے پہر
چاند کرتا ہے گفتگو ہم سے
شہر میں اب ہمارے چرچے ہیں
جگمگاتے ہیں کاخ و کو ہم سے
غزل
جلوہ ساماں ہے رنگ و بو ہم سے
ناصر کاظمی