EN हिंदी
جلوۂ گل کا سبب دیدۂ تر ہے کہ نہیں | شیح شیری
jalwa-e-gul ka sabab dida-e-tar hai ki nahin

غزل

جلوۂ گل کا سبب دیدۂ تر ہے کہ نہیں

مجروح سلطانپوری

;

جلوۂ گل کا سبب دیدۂ تر ہے کہ نہیں
میری آہوں سے بہاراں کی سحر ہے کہ نہیں

راہ گم کردہ ہوں کچھ اس کو خبر ہے کہ نہیں
اس کی پلکوں پہ ستاروں کا گزر ہے کہ نہیں

دل سے ملتی تو ہے اک راہ کہیں سے آ کر
سوچتا ہوں یہ تری راہ گزر ہے کہ نہیں

تیز ہو دست ستم دے بھی شراب اے ساقی
تیغ گردن پہ سہی جام سپر ہے کہ نہیں

میں جو کہتا تھا سو اے رہبر کوتاہ خرام
تیری منزل بھی مری گرد سفر ہے کہ نہیں

اہل تقدیر یہ ہے معجزۂ دست عمل
جو خزف میں نے اٹھایا وہ گہر ہے کہ نہیں

دیکھ کلیوں کا چٹکنا سر گلشن صیاد
سب کی اور سب سے جدا اپنی ڈگر ہے کہ نہیں

ہم روایات کے منکر نہیں لیکن مجروحؔ
زمزمہ سنج مرا خون جگر ہے کہ نہیں