جلوۂ دوست کسی وقت بھی روپوش نہیں
ہائے محرومیٔ قسمت کہ ہمیں ہوش نہیں
آپ احسان کے انداز تو سیکھیں پہلے
فطرت عشق بھی احسان فراموش نہیں
صرف وہ لوگ ہی دیوانہ سمجھتے ہیں مجھے
آج اس دور میں اپنا بھی جنہیں ہوش نہیں
وہ مری بادہ پرستی کو ابھی کیا جانے
جو مری طرح ابھی میکدہ بر دوش نہیں
جام اٹھاتا ہوں ترے حکم سے محفل میں مدام
میں بلانوش نہیں ہوں میں بلانوش نہیں
ساقیٔ بزم تری مست نگاہوں کا اثر
دل پہ کس وقت ہوا تھا یہ مجھے ہوش نہیں
وہ بھی کہتے ہیں مجھے میں جنہیں کہتا ہوں عزیزؔ
ہوش اب ان کو نہیں ہے کہ مجھے ہوش نہیں
غزل
جلوۂ دوست کسی وقت بھی روپوش نہیں
عزیز وارثی