EN हिंदी
جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا | شیح شیری
jalwa dikha ke guzra wo nur didgan ka

غزل

جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا

میر محمدی بیدار

;

جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
تاریک کر گیا گھر حسرت کشیدگاں کا

غم یار کا نہ بھولے سو باغ اگر دکھا دیں
کب دل چمن میں وا ہو ماتم رسیدگاں کا

رنگ حنا پہ تہمت اس لالہ رو نے باندھی
ہاتھوں میں مل کے آیا خوں دل طپیدگاں کا

اہل قبور اوپر وہ شوخ کل جو گزرا
بیتاب ہو گیا دل خاک آرمیدگاں کا

یوں میرؔ سے سنا ہے وہ مست جام بیدارؔ
تہ کر گیا مصلٰی عزلت گزیدگاں کا