جلوہ چاروں اور تھا
بیچ میں اک مور تھا
سیدھا سادا آدمی
برتا تو چوکور تھا
دہراؤں الفاظ کو
آوازوں کا شور تھا
مرضی اس کی چھوڑیئے
اپنا کوئی زور تھا
آنکھوں میں کیوں خوف تھا
دل میں کوئی چور تھا
میں دلی میں منتظر
وہ پاپی لاہور تھا

غزل
جلوہ چاروں اور تھا
سرشار بلند شہری