EN हिंदी
جلوہ بے مایہ سا تھا چشم و نظر سے پہلے | شیح شیری
jalwa be-maya sa tha chashm-o-nazar se pahle

غزل

جلوہ بے مایہ سا تھا چشم و نظر سے پہلے

شیر افضل جعفری

;

جلوہ بے مایہ سا تھا چشم و نظر سے پہلے
زیست اک حادثہ تھی قلب و جگر سے پہلے

حسن کے سوز نمائش کا ہے انعام حیات
وقت بھی وقت نہ تھا شمس و قمر سے پہلے

وحی اتری دل بے تاب کی تشکیل کے بعد
عشق تعمیر ہوا علم و ہنر سے پہلے

عین فردوس میں جل اٹھا تھا آدم کا شباب
آگ برسی تھی یہیں دیدۂ تر سے پہلے

پھر کہیں دل کے سوا ان کو اماں ہی نہ ملی
بت نکالے گئے اللہ کے گھر سے پہلے

زندگی مزرع تکلیف و سکوں ہے افضلؔ
شام اگتی ہے یہاں نور سحر سے پہلے