جلتی ہوائیں کہہ گئیں عزم ثبات چھوڑ دے
تیرا بدن پگھل گیا دست حیات چھوڑ دے
آگ سے کھیل کھیل کر کتنے جلا لئے ہیں ہاتھ
تجھ سے کہا تھا بارہا دیکھ یہ بات چھوڑ دے
میں تیرے ساتھ ہوں مگر یہ وہ مقام ہے کہ اب
جو تیرے جی میں آئے کر جا میری بات چھوڑ دے
تیری نظر سراب پر مجھ کو عزیز گرد راہ
تو میرا ہم سفر نہیں تو میرا ہاتھ چھوڑ دے
تشنہ لبوں کو چوم کر کوئی تو ہو جو یہ کہے
لشکر مصلحت شناس ہٹ جا فرات چھوڑ دے
معرکۂ بلا کی شب کس نے کہا بصد خلوص
وہ بھی مجھے عزیز ہے جو میرا ساتھ چھوڑ دے
غزل
جلتی ہوائیں کہہ گئیں عزم ثبات چھوڑ دے
سجاد بابر