جلتے ہوئے کچھ سوچ کے اک پل کو رکا تھا
ایسے بھی وہ یادوں کو مری چھوڑ رہا تھا
آنکھوں میں تھکن گرد مہ و سال جبیں پر
اک شخص کہیں دور دھندلکوں میں ملا تھا
اب کیوں ہے اداسی کا سماں حد نظر تک
کل رات خیالوں میں کوئی جاگ رہا تھا
کیوں مصلحتاً لوگ اسے بھول گئے ہیں
انسان کی عظمت کو صلیبوں میں پڑھا تھا
تنہائی کے دروازے سے یادوں کا سمندر
لگتا ہے کہ جذبات میں سر مار رہا تھا
رہ رہ کے وہ چہرہ مجھے یاد آتا ہے ثاقبؔ
دیکھا نہیں جی بھر کے اسے کون تھا کیا تھا

غزل
جلتے ہوئے کچھ سوچ کے اک پل کو رکا تھا
میر نقی علی خاں ثاقب