EN हिंदी
جلتے ہوئے کچھ سوچ کے اک پل کو رکا تھا | شیح شیری
jalte hue kuchh soch ke ek pal ko ruka tha

غزل

جلتے ہوئے کچھ سوچ کے اک پل کو رکا تھا

میر نقی علی خاں ثاقب

;

جلتے ہوئے کچھ سوچ کے اک پل کو رکا تھا
ایسے بھی وہ یادوں کو مری چھوڑ رہا تھا

آنکھوں میں تھکن گرد مہ و سال جبیں پر
اک شخص کہیں دور دھندلکوں میں ملا تھا

اب کیوں ہے اداسی کا سماں حد نظر تک
کل رات خیالوں میں کوئی جاگ رہا تھا

کیوں مصلحتاً لوگ اسے بھول گئے ہیں
انسان کی عظمت کو صلیبوں میں پڑھا تھا

تنہائی کے دروازے سے یادوں کا سمندر
لگتا ہے کہ جذبات میں سر مار رہا تھا

رہ رہ کے وہ چہرہ مجھے یاد آتا ہے ثاقبؔ
دیکھا نہیں جی بھر کے اسے کون تھا کیا تھا