جلتا نہیں اور جل رہا ہوں
کس آگ میں میں پگھل رہا ہوں
مفلوج ہیں ہاتھ پاؤں میرے
پھر ذہن میں کیوں یہ چل رہا ہوں
اک بوند نہیں لہو کی باقی
کس بات پر میں مچل رہا ہوں
تم جھوٹ یہ کہہ رہے ہو مجھ سے
میں بھی کبھی بے بدل رہا ہوں
کیوں مجھ سے ہوئے گناہ سرزد
کہنے کو تو بے عمل رہا ہوں
رائی کا بنا کے ایک پربت
اب اس پہ یوں ہی پھسل رہا ہوں
کس ہاتھ سے ہاتھ میں ملاؤں
اب اپنے ہی ہاتھ مل رہا ہوں
کیوں آئینہ بار بار دیکھوں
میں آج نہیں جو کل رہا ہوں
اب کون سا در رہا ہے باقی
اس در سے میں کیوں نکل رہا ہوں
قدموں کے تلے تو کچھ نہیں ہے
کس چیز کو میں کچل رہا ہوں
اب کوئی نہیں رہا سہارا
میں آج پھر سے سنبھل رہا ہوں
میں کیوں کروں آسماں کی خواہش
اب تک تو زمیں پہ چل رہا ہوں
یہ برف ہٹاؤ میرے سر سے
میں آج کچھ اور جل رہا ہوں
مجھ کو نہ پلاؤ کوئی پانی
پیاسوں کے میں ساتھ چل رہا ہوں
کھانے کی نہیں رہی طلب کچھ
اب بھوک کے بل پہ پل رہا ہوں
غزل
جلتا نہیں اور جل رہا ہوں
خلیلؔ الرحمن اعظمی