جلنے میں کیا لطف ہے یہ تو پوچھو تم پروانے سے
دیوانہ پن کیا شے ہے یہ راز ملے دیوانے سے
ناؤ بھنور میں آئی ہے اب بچنا ہوا محال بہت
جو ہونا ہے سو ہوگا کیا ہوگا جی بہلانے سے
گر اس ساری عمر میں ایک بھی لمحہ نہیں مسرت کا
کیسے سوچ لیں ہو جائیں گے ختم یہ دکھ مر جانے سے
اب بھی بھرا نہیں ہے تمہارا جی تو کر لو اور ستم
دل تو باز نہیں آنے والا ہے ایسے ستانے سے
کتنی بار کہا لوگوں نے خیالؔ بھلا دے ظالم کو
کاش کہ پگلے لوگ یہ سوچیں بھولا ہے کوئی بھلانے سے

غزل
جلنے میں کیا لطف ہے یہ تو پوچھو تم پروانے سے
سکندر حیات خیال