جلے ہیں دل نہ چراغوں نے روشنی کی ہے
وہ شب پرستوں نے محفل میں تیرگی کی ہے
حدیث ظلم و ستم ہے ہنوز نا گفتہ
ہنوز مہر زبانوں پہ خامشی کی ہے
اس ایک جام نے ساقی کی جو عطا ٹھہرا
سکوں دیا ہے نہ کچھ درد میں کمی کی ہے
ہمیں یہ ناز نہ کیوں ہو کہ نے نواز ہیں ہم
ہمارے ہونٹوں نے ایجاد نغمگی کی ہے
چمن میں صرف ہمیں راز داں ہیں کانٹوں کے
گلوں کے ساتھ بسر ہم نے زندگی کی ہے
فراق یار نے بخشی ہے وصل کی لذت
خیال یار نے ظلمت میں روشنی کی ہے
ہیں جس کی دید سے محروم آج تک خاورؔ
اسی کی ہم نے تصور میں بندگی کی ہے
غزل
جلے ہیں دل نہ چراغوں نے روشنی کی ہے
بدیع الزماں خاور