جلے چراغ بجھانے کی ضد نہیں کرتے
اب آ گئے ہو تو جانے کی ضد نہیں کرتے
کسی کی آنکھ میں آنسو ہمیں پسند نہیں
دلوں کے زخم دکھانے کی ضد نہیں کرتے
تمہارے نام کا بھی ذکر ہو نہ جائے کہیں
غزل کے شعر سنانے کی ضد نہیں کرتے
ہمارے سائے بھی رستے میں چھوڑ جاتے ہے
ہمارا ساتھ نبھانے کی ضد نہیں کرتے
خلا میں کوئی امارت کبھی نہیں ٹکتی
وہاں مکان بنانے کی ضد نہیں کرتے
یہ شہر سنگ ہے پتھر کے لوگ رہتے ہیں
یہاں پہ فول کھلانے کی ضد نہیں کرتے
زمین جیسا کہیں چاند بھی نہ ہو جائے
زمیں پہ چاند کو لانے کی ضد نہیں کرتے

غزل
جلے چراغ بجھانے کی ضد نہیں کرتے
چاندنی پانڈے