جلے چراغ بھلا کیسے تا سحر کوئی
ہوا کے پاس نہیں دوسرا ہنر کوئی
ابھرتی ڈوبتی گزرے ہوئے وصال کی ناؤ
بدن کے بحر میں پڑتا ہوا بھنور کوئی
یہ دل جزیرہ کسی دھند کے غلاف میں ہے
سو اب جہاز نہیں آئے گا ادھر کوئی
اداس چاند نے دریا کے در پہ دستک دی
خوش آمدید کو بڑھنے لگا بھنور کوئی
کسی سوال کا چہرہ کسی خیال کا پھول
نواح جاں میں کہاں حرف معتبر کوئی
غزل
جلے چراغ بھلا کیسے تا سحر کوئی
اسعد بدایونی