جلا ہے ہائے کس جان چمن کی شمع محفل سے
مہک پھولوں کی آتی ہے شرار آتش دل سے
یہ دامان حوادث سے قیامت تک نہ گل ہوگا
چراغ دل مرا روشن ہے ان کی شمع محفل سے
جناب خضر ہم کو خاک رستے پر لگائیں گے
کہ منزل بے خودوں کی ہے معرا قید منزل سے
ٹھہر بھی اے خیال حشر اور اک جام پینے دے
سرکتا ہے ابھی ظلمت کا پردہ خانۂ دل سے
سحر نے لے کے انگڑائی طلسم ناز شب توڑا
فلک پر حسن کی شمعیں اٹھیں تاروں کی محفل سے
بڑھا ہے کون یہ گرداب کی خوراک ہونے کو
کہ اٹھا شور ماتم یک بیک انبوہ ساحل سے
مری بالیں سے اٹھ کر رونے والو یہ بھی سوچا ہے
چلا ہوں کس کی محفل میں اٹھا ہوں کس کی محفل سے
ہے اس کمبخت کو ضد سوز باطن سے پگھل جاؤں
نگاہوں نے تمہاری کہہ دیا ہے کیا مرے دل سے
نہ دامن گیر دل ہو نا خدا پھر کوئی نظارہ
خدا کے واسطے کشتی بڑھا آغوش ساحل سے
سپرد بیخودی کر دے فرائض عقل خود بیں کے
ہٹا دے اس سیہ باطن کا پہرا خانۂ دل سے
ہر اک ذرہ ہے دل اے جانے والے دیکھ کر چلنا
ہزاروں ہستیاں لپٹی پڑی ہیں خاک منزل سے
مری بے باک نظریں ان کی جانب اٹھ ہی جاتی ہیں
ابھی احسانؔ میں واقف نہیں آداب محفل سے
غزل
جلا ہے ہائے کس جان چمن کی شمع محفل سے
احسان دانش