جل رہی تھی اک دئیے میں رات خیمے سے الگ
تاپتے تھے دو پرندے ہات خیمے سے الگ
مند رہی تھیں نیند سے آنکھیں شکستہ طاق میں
پڑھ رہی تھی روشنی تورات خیمے سے الگ
اک ٹھٹھرتی رات آتش دان میں بجھتا بدن
میں الگ تھا اور میری ذات خیمے سے الگ
اگ رہے تھے میرے ہونٹوں سے مقدس حرف و صوت
پڑھ رہا تھا میں نبی کی نعت خیمے سے الگ
بن رہا تھا میں گرے پتوں سے موسم کا لباس
اس نے لکھا تھا کہ منظر کات خیمے سے الگ

غزل
جل رہی تھی اک دئیے میں رات خیمے سے الگ
مسعود حسن