جل پری ہے تو وہ تسخیر بھی ہو سکتی ہے
خواب ہوتا ہے تو تعبیر بھی ہو سکتی ہے
زندگی کو ذرا شطرنج سمجھ کر دیکھو
میرے جھک جانے میں تدبیر بھی ہو سکتی ہے
مسئلے مجھ کو مٹانے ہی کا سامان نہیں
مسئلوں سے مری تعمیر بھی ہو سکتی ہے
یار معلوم ہوا ہے کہ خلا خالی نہیں
رات آئینے میں تصویر بھی ہو سکتی ہے
زندگی فلم نہیں جس کا ہو انجام حسیں
صورت حال یہ گمبھیر بھی ہو سکتی ہے
اس سے بہتر ہے کہ ہم سامنے لائیں الفت
کچھ نہیں ہونے کی تشہیر بھی ہو سکتی ہے
ذمہ داری بھی دفاتر میں ترقی سے بڑھے
آپ کی ٹائی تو زنجیر بھی ہو سکتی ہے
سارے جالے ہیں وجوہات کے جالے لیکن
یہ جو مکڑی ہے یہ تقدیر بھی ہو سکتی ہے
وقت کے ساتھ نکھر جاتا ہے تخلیق کا فن
شام ذیشانؔ شب میرؔ بھی ہو سکتی ہے
غزل
جل پری ہے تو وہ تسخیر بھی ہو سکتی ہے
ذیشان ساجد