EN हिंदी
جل کر ان آنکھوں میں آنسو جب کاجل بن جاتے ہیں | شیح شیری
jal kar un aankhon mein aansu jab kajal ban jate hain

غزل

جل کر ان آنکھوں میں آنسو جب کاجل بن جاتے ہیں

سعید الزماں عباسی

;

جل کر ان آنکھوں میں آنسو جب کاجل بن جاتے ہیں
دل سے اٹھ کر ریگ بگولے دل بادل بن جاتے ہیں

کوئی سچی بات زباں پر جب بھی کبھی آ جاتی ہے
وہ صحرا ہو یا گلشن ہو سب مقتل بن جاتے ہیں

جب بھی ذہن میں جاگ اٹھتی ہے ان ہونٹوں کی شیرینی
کیسے کیسے تلخ مسائل جان غزل بن جاتے ہیں

اس سے زیادہ کیا ہوگا ارباب محبت کا اظہار
وہ بیکل ہو جاتے ہیں تو سب بیکل بن جاتے ہیں

ہم نے صدیوں کی دیواروں میں جو رخنے ڈالے تھے
ان سے گزرنے والے لمحے تاج محل بن جاتے ہیں