جیسے کوئی روتا ہے گلے پیار سے لگ کر
کل رات میں رویا تری دیوار سے لگ کر
ہر ایک کے چہرے پہ ہے تشویش نمایاں
بیٹھے ہیں مسیحا ترے بیمار سے لگ کر
پھولوں کی محبت نے سبق مجھ کو سکھایا
زخمی جو ہوئے ہاتھ مرے خار سے لگ کر
غمازئ خوشبو پہ کھلا راز چمن میں
گزری ہے صبا گیسوئے دلدار سے لگ کر
جب جب دل وحشی کو ترے غم نے ستایا
ہم بیٹھ گئے زانوئے غمخوار سے لگ کر
سمجھا اسے پھولوں کی نوازش دل سادہ
جو زخم لگا نوک سر خار سے لگ کر
اعجازؔ کوئی شوق نہیں سیر جہاں کا
آرام سے بیٹھے ہیں در یار سے لگ کر
غزل
جیسے کوئی روتا ہے گلے پیار سے لگ کر
عزیز اعجاز