جیسے ہم آتے ہیں خدمت میں سبھی آیا کریں
لیکن اے جان کرم جب ہم چلے جایا کریں
میرا ذکر آتے ہی چپ ہونے کا کوئی مدعا
کچھ تو آخر وہ مرے بارے میں فرمایا کریں
سب ہیں ویسے اور کوئی بھی نہیں اس شہر میں
یہ کہیں جانے کی بستی ہے کہاں جایا کریں
سب ہیں ویسے اور کوئی بھی نہیں اس شہر میں
یہ کہیں جانے کی بستی ہے کہاں جایا کریں
تشنگی بھی مصلحت ہے لیکن اندازے کے ساتھ
ظرف والے اب ہمیں اتنا نہ ترسایا کریں
کل سے کچھ گلیوں میں باتیں ہو رہی ہیں اور ادھر
ہم بھی اب ٹھہریں گے کم وہ بھی گزر جایا کریں
ہم تو قصے کہتے کہتے تھک گئے چپ ہو گئے
اب ہماری داستانیں لوگ دہرایا کریں
مجھ کو گھر کی رونقوں نے یہ نہ دی ہوگی دعا
تیرے سر پر عمر بھر تنہائیاں سایا کریں
کیا تسلی دوں اب اس ارمان طفلاں پر کہ آپ
کوئی دن تو رات سے پہلے بھی گھر آیا کریں
ہو شمار اپنا بھی آسودہ نصیبوں میں اگر
آگہی کے زخم بازاروں میں بک جایا کریں
محشرؔ اچھا ہے خیال رسم و راہ دل مگر
بات نازک ہے زباں پر سوچ کر لایا کریں
غزل
جیسے ہم آتے ہیں خدمت میں سبھی آیا کریں
محشر بدایونی