جیسے دریا میں گہر بولتا ہے
سات پردوں میں ہنر بولتا ہے
تیری خاموشی سے دہشت ہے عیاں
تیری آواز میں ڈر بولتا ہے
جاگ اوروں کو جگانے کے لیے
بول جس طرح گجر بولتا ہے
دل کی دھڑکن سے لرزتا ہے بدن
اپنی وحشت میں کھنڈر بولتا ہے
یہ وہی ساعت بیداری ہے
جب دعاؤں میں اثر بولتا ہے
ہو گیا رنگ سخن سے ظاہر
شعر میں خون جگر بولتا ہے

غزل
جیسے دریا میں گہر بولتا ہے
سیف الدین سیف