جیسا تم چاہو گے ویسا نہیں ہونے والا
ورنہ ہونے کو یہاں کیا نہیں ہونے والا
مقتدر ہو تو غریبوں سے جو چاہو لے لو
عزت نفس کا سودا نہیں ہونے والا
دل یہ کہتا ہے کسی کو بھی نہ لا خاطر میں
عقل کہتی ہے کہ اچھا نہیں ہونے والا
امن پرچار تلک ٹھیک سہی لیکن امن
تم کو لگتا ہے کہ ہوگا نہیں ہونے والا
زر کے میزان میں ہر شخص کو کیا تولتے ہو
ہر بشر تو سگ دنیا نہیں ہونے والا
میرا چہرہ ہے مرے قلب کا عکاس نقیبؔ
میرا چہرہ ترا چہرہ نہیں ہونے والا

غزل
جیسا تم چاہو گے ویسا نہیں ہونے والا
فصیح اللہ نقیب