EN हिंदी
یہ کون جلوہ فگن ہے مری نگاہوں میں | شیح شیری
ye kaun jalwa-fagan hai meri nigahon mein

غزل

یہ کون جلوہ فگن ہے مری نگاہوں میں

جہانگیر نایاب

;

یہ کون جلوہ فگن ہے مری نگاہوں میں
قدم قدم پہ برستا ہے نور راہوں میں

بھروسہ حد سے سوا تھا مجھے کبھی جس پر
مرے خلاف ہے شامل وہی گواہوں میں

سپردگی کا یہ عالم بھی کیا قیامت ہے
سمٹ کے یوں تیرا آ جانا میری باہوں میں

تری پناہ میں رہ کر بھی جو نہیں محفوظ
مرا شمار ہے ایسے ہی بے پناہوں میں

کب آسمان کا پھٹتا ہے دل یہ دیکھنا ہے
بدل رہی ہیں مری سسکیاں کراہوں میں

میں کیسے پیش کروں دعویٰ پارسائی کا
میں ایک عمر ملوث رہا گناہوں میں

بنا ہے جب سے وہ نایابؔ ہم سفر میرا
بچھے ہوئے ہیں مسرت کے پھول راہوں میں