جہاں والوں سے برتی اس قدر بے گانگی میں نے
کہ برہم کر لیا اپنا نظام زندگی میں نے
سکھائے حسن کافر کو سلیقے خود نمائی کے
سنوارا پے بہ پے اپنا مذاق عاشقی میں نے
ہوئے روشن نہ پھر بھی بام و در فکر و تصور کے
ہزاروں بار کی بزم جہاں میں روشنی میں نے
دل ناعاقبت اندیش کی کوتاہ بینی کی
کبھی تائید کی میں نے کبھی تردید کی میں نے
ہزاروں بار تہذیب و تمدن کی فضا بدلی
ہزاروں بار اک دنیا نئی آباد کی میں نے
کیا افشا نہ راز غم کسی پر جیتے جی فارغؔ
بڑے صبر و تحمل سے بسر کی زندگی میں نے

غزل
جہاں والوں سے برتی اس قدر بے گانگی میں نے
لکشمی نارائن فارغ