EN हिंदी
جہاں والوں سے برتی اس قدر بے گانگی میں نے | شیح شیری
jahan walon se barti is qadar be-gangi maine

غزل

جہاں والوں سے برتی اس قدر بے گانگی میں نے

لکشمی نارائن فارغ

;

جہاں والوں سے برتی اس قدر بے گانگی میں نے
کہ برہم کر لیا اپنا نظام زندگی میں نے

سکھائے حسن کافر کو سلیقے خود نمائی کے
سنوارا پے بہ پے اپنا مذاق عاشقی میں نے

ہوئے روشن نہ پھر بھی بام و در فکر و تصور کے
ہزاروں بار کی بزم جہاں میں روشنی میں نے

دل ناعاقبت اندیش کی کوتاہ‌‌ بینی کی
کبھی تائید کی میں نے کبھی تردید کی میں نے

ہزاروں بار تہذیب و تمدن کی فضا بدلی
ہزاروں بار اک دنیا نئی آباد کی میں نے

کیا افشا نہ راز غم کسی پر جیتے جی فارغؔ
بڑے صبر و تحمل سے بسر کی زندگی میں نے