جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خال کنج دہن کے
سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں
ترے سرو قامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
سراغ تف نالہ لے داغ دل سے
کہ شب رو کا نقش قدم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
کسو کو زخود رستہ کم دیکھتے ہیں
کہ آہو کو پابند رم دیکھتے ہیں
خط لخت دل یک قلم دیکھتے ہیں
مژہ کو جواہر رقم دیکھتے ہیں
غزل
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
مرزا غالب