جہاں سے اب گزرنا چاہتے ہیں
کہ ہم جنت میں رہنا چاہتے ہیں
توجہ آپ فرمائیں اگر تو
کچھ ہم بھی عرض کرنا چاہتے ہیں
ذرا تیغ نگہ کو تیز کیجے
کہ ہم بھی کچھ تڑپنا چاہتے ہیں
چھپا رکھی جو ہے وہ جام دے دے
وہی پی کر بہکنا چاہتے ہیں
مزہ عاشق کو اس میں بھی ہے ملتا
جفائیں تیری سہنا چاہتے ہیں
ہوئے ہیں تنگ اس دنیا سے ایسے
بلا تاخیر مرنا چاہتے ہیں
ورق خوشترؔ کتاب زندگی کا
کوئی تازہ الٹنا چاہتے ہیں
غزل
جہاں سے اب گزرنا چاہتے ہیں
منصور خوشتر