EN हिंदी
جہاں سے آئے تھے شاید وہیں چلے گئے ہیں | شیح شیری
jahan se aae the shayad wahin chale gae hain

غزل

جہاں سے آئے تھے شاید وہیں چلے گئے ہیں

شناور اسحاق

;

جہاں سے آئے تھے شاید وہیں چلے گئے ہیں
وہ صاحبان بشارت کہیں چلے گئے ہیں

زمیں پہ رینگتے رہنے کو ہم جو ہیں موجود
جو اہل شرم تھے زیر زمیں چلے گئے ہیں

بہشت ہے کہ نہیں ہے یہ تو ہی جانتا ہے
ترے فقیر بہ نام یقیں چلے گئے ہیں

دکھائی دیں گے کبھی وقت کے جھروکوں سے
وہ لوگ اب بھی یہیں ہیں ہمیں چلے گئے ہیں

وہی ہوا ہے جو ہوتا ہے سونے والوں سے
اے میرے دل ترے پہلو نشیں چلے گئے ہیں

ہماری آنکھ شناورؔ ہوئی ہے کیا نمناک
سخن سراؤں سے زہرا جبیں چلے گئے ہیں