EN हिंदी
جہاں سارے ہوا بننے کی کوشش کر رہے تھے | شیح شیری
jahan sare hawa banne ki koshish kar rahe the

غزل

جہاں سارے ہوا بننے کی کوشش کر رہے تھے

عباس قمر

;

جہاں سارے ہوا بننے کی کوشش کر رہے تھے
وہاں بھی ہم دیا بننے کی کوشش کر رہے تھے

ہمیں زور تصور بھی گنوانا پڑ گیا ہم
تصور میں خدا بننے کی کوشش کر رہے تھے

زمیں پر آ گرے جب آسماں سے خواب میرے
زمیں نے پوچھا کیا بننے کی کوشش کر رہے تھے

انہیں آنکھوں نے بیدردی سے بے گھر کر دیا ہے
یہ آنسو قہقہہ بننے کی کوشش کر رہے تھے

ہمیں دشواریوں میں مسکرانے کی طلب تھی
ہم اک تصویر سا بننے کی کوشش کر رہے تھے