جہاں رنگ و بو ہے اور میں ہوں
بہار آرزو ہے اور میں ہوں
سکوں کا کام کیا اس میکدے میں
ازل سے ہا و ہو ہے اور میں ہوں
الٰہی شرع میں رکھا ہی کیا ہے
نماز بے وضو ہے اور میں ہوں
جو تم آئے تو آئی جان میں جاں
مقدر روبرو ہے اور میں ہوں
مری رسوائیاں ہیں اور تم ہو
تمہاری گفتگو ہے اور میں ہوں
ترے دیدار کی جویا ہیں آنکھیں
تلاش چار سو ہے اور میں ہوں
عجب شے خود فراموشی ہے کیفیؔ
صراحی ہے سبو ہے اور میں ہوں
غزل
جہاں رنگ و بو ہے اور میں ہوں
چندر بھان کیفی دہلوی