جہاں پہ تیری کمی بھی نہ ہو سکے محسوس
تلاش ہی رہی آنکھوں کو ایسے منظر کی
ہمیں تو خود نہیں معلوم کیا کسی سے کہیں
کہ تجھ سے ملنے کی کوشش نہ کیوں بچھڑ کر کی
مگر یہ ذوق پرستش کہ اب بھی تشنہ ہے
جبیں کو چوم چکے ایک ایک پتھر کی
کہاں پہ دفن وہ پرچھائیاں کریں یارو
جو تاب لا نہ سکیں روشنی کے خنجر کی
ہر ایک گل کو ہے عشق سموم کا سودا
ہر ایک شاخ یہاں معتقد ہے صرصر کی
جدھر اندھیرا ہے تنہائی ہے اداسی ہے
سفر کی ہم نے وہی سمت کیوں مقرر کی
غزل
جہاں پہ تیری کمی بھی نہ ہو سکے محسوس (ردیف .. ی)
شہریار