EN हिंदी
جہاں پہ علم کی کوئی قدر اور حوالہ نہیں | شیح شیری
jahan pe ilm ki koi qadr aur hawala nahin

غزل

جہاں پہ علم کی کوئی قدر اور حوالہ نہیں

وقار خان

;

جہاں پہ علم کی کوئی قدر اور حوالہ نہیں
میں اس زمین پہ پاؤں بھی رکھنے والا نہیں

میں اس درخت کے اندر تھا جس کو کاٹا گیا
کسی نے بھی تو وہاں سے مجھے نکالا نہیں

وہ اپنے عہد سے آگے کی باتیں کرنے لگا
بہکتے شخص کو دنیا نے پھر سنبھالا نہیں

ہر ایک چوٹ پہ کچھ اور جڑنے لگتا تھا
سو اس نے مجھ کو کسی شکل میں بھی ڈھالا نہیں

عجیب خوف میں پروان چڑھ رہی ہے یہ نسل
کسی کے ہاتھ میں بھی زہر کا پیالہ نہیں

اب اپنی سانسوں سے زنجیر توڑنی ہے مجھے
کہ ہاتھ بیچنے کا اور کچھ ازالہ نہیں