جہاں میں جس کی شہرت کو بہ کو ہے
وہ مجھ سے آج محو گفتگو ہے
رہا آباد خوابوں میں جو اب تک
خوشا قسمت کہ اب وہ روبرو ہے
کبھی وہ پیار سے اک پھول لائے
بہت دن سے مری یہ آرزو ہے
نہیں آتا غزل میں نام کوئی
تعلق اس قدر با آبرو ہے
مرا احساس جس سے ہے معطر
وہی خوشبو تو میرے چار سو ہے
سراپا میرا جو ہے اتنا رنگیں
یہ اس کی یاد کا ہی رنگ و بو ہے
جہاں کل تک تھا مایوسی کا صحرا
وہاں امید کی اک آب جو ہے
وہ آوازیں جو دل میں گونجتی ہیں
مری انفاس کی وہ ہاؤ ہو ہے
مجھے لے جائے جو منزل کی جانب
اب ایسے کارواں کی جستجو ہے
مرا ظاہر نظر آتا ہے جیسا
مرا باطن بھی ویسا ہو بہ ہو ہے
سبیلہؔ سوچ اتنی پاک رکھی
ہر اک مضمون میرا با وضو ہے

غزل
جہاں میں جس کی شہرت کو بہ کو ہے
سبیلہ انعام صدیقی