EN हिंदी
جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا | شیح شیری
jahan mein abhi yun to kya kya na hoga

غزل

جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا

نسیم بھرتپوری

;

جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا
زمیں پر کوئی تم سا پیدا نہ ہوگا

شراب محبت کو اے زاہدو تم
برا گر کہو گے تو اچھا نہ ہوگا

سر بزم دشنام دشمن کو دے کر
مجھے تم نے کیا دل میں کوسا نہ ہوگا

مری بے قراری کو کیا دیکھتے ہو
کبھی برق کو تم نے دیکھا نہ ہوگا

نسیمؔ اور کچھ فکر کیجے خدارا
اب اس نوکری میں گزارا نہ ہوگا