جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
وہیں ہے گنہ پہ ڈٹ کے گناہ کرنا
بتوں سے بڑھا کے میل نباہ کرنا
جہاں کے سفید کو ہے سیاہ کرنا
سکھایا ہے مجھ کو اس مری بے کسی نے
اسی کو ستم کا اس کے گواہ کرنا
لبھانے سے دل کے تھا تو یہ مدعا تھا
غریب کی زندگی کو تباہ کرنا
یہی تو ہے ہاں یہی وہ ادائے معصوم
الگ ہوئی جو سکھا کے گناہ کرنا
جفا سے بھی لیں مزہ نہ وفا کا کیوں کر
ہمیں تو ہر اک طرح ہے نباہ کرنا
یہ کہتا ہے چشم ہوش ربا کا جادو
تجھے ترے ہاتھ سے ہے تباہ کرنا
تری نظر سے سیکھا ہے آہ دل نے
جگر میں شگاف ڈال کے راہ کرنا
نظر میں نظر گڑائے ہے یوں وہ ظالم
کہ آرزوؔ اب کٹھن ہے اک آہ کرنا
غزل
جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
آرزو لکھنوی