جہاں جہاں پر قدم رکھو گے تمہیں ملے گی وہیں اداسی
یہ راز کچھ اس طرح سمجھ لو مکاں مرا ہے مکیں اداسی
سمے کی آنکھوں سے دیکھیے تو ہر اک کھنڈر میں چھپے ملیں گے
کہیں پہ بچپن کہیں جوانی کہیں بڑھاپا کہیں اداسی
مرے شبستاں کے پاس کوئی بری طرح کل سسک رہا تھا
میں اس کے سینے سے لگ کے بولا نہیں اداسی نہیں اداسی
بدھائی چہکیں دعائیں گونجی تمام چہرے خوشی سے جھومے
قبول ہے تین بار بولی جب ایک پردہ نشیں اداسی
بچھڑنے والے بچھڑتے ٹائم نہ کہہ سکے کچھ نہ سن سکے کچھ
بس ایک فوٹو میں قید کر لی گئی بلا کی حسیں اداسی
شفیق سورج خموش پانی مگر ابھی بھی کمی ہے کچھ کچھ
چراغؔ صاحب کے شعر پڑھ کر کریں مکمل ہمیں اداسی
غزل
جہاں جہاں پر قدم رکھو گے تمہیں ملے گی وہیں اداسی
آیوش چراغ