EN हिंदी
جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا | شیح شیری
jahan gham mila uThaya phir use ghazal mein Dhaala

غزل

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا

کلیم عاجز

;

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا

ترے ہاتھ سے ملی ہے مجھے آنسوؤں کی مالا
تری زلف ہو دوگونہ ترا حسن ہو دوبالا

یہ سماں اسے دکھاؤں صبا جا اسے بلا لا
نہ بہار ہے نہ ساقی نہ شراب ہے نہ پیالا

مرے درد کی حقیقت کوئی میرے دل سے پوچھے
یہ چراغ وہ ہے جس سے مرے گھر میں ہے اجالا

اسے انجمن مبارک مجھے فکر و فن مبارک
یہی میرا تخت زریں یہیں میری مرگ چھالا