EN हिंदी
جہاں غم ہے نہ اب کوئی خوشی ہے | شیح شیری
jahan gham hai na ab koi KHushi hai

غزل

جہاں غم ہے نہ اب کوئی خوشی ہے

موج فتح گڑھی

;

جہاں غم ہے نہ اب کوئی خوشی ہے
محبت اس جگہ پر آ گئی ہے

جسے دیکھو اسے اپنی پڑی ہے
زمانے کی بہت حالت گری ہے

مسلسل فکر دنیا فکر عقبیٰ
اب ایسی زندگی کیا زندگی ہے

میں اپنے دل کی باتیں کہہ رہا ہوں
زمانے کے لئے یہ شاعری ہے

سکوں ملتا ہے ان کی یاد کر کے
علاج تشنگی خود تشنگی ہے

دلوں میں ہے اندھیرا عہد نو کا
بظاہر روشنی ہی روشنی ہے

بڑی مشکل ہے میر کارواں کی
بہت پھیلی ہوئی بے رہ روی ہے

نئی تہذیب میں سب کچھ ہے لیکن
فقط انسانیت ہی کی کمی ہے

یہ لگتا ہے ترقی کر رہے ہیں
گراوٹ روز بڑھتی جا رہی ہے

کہیں پتھر نہ پھیکے یہ زمانہ
تیری فکر و عمل شیشہ گری ہے

اٹھا ہے ایک کونے میں دھواں سا
کہیں شاید کوئی بجلی گری ہے

کروں اے موجؔ کیا امید ساحل
کہ اب طوفاں میں کشتی گھری ہے